دیارِ ہند |
سکوتِ قلب میں ہنگامہ و کہرام پیدا کر |
تلاطم آشنا لہریں ہو، موجِ بام پیدا کر |
تخیل میں چلے آندھی ترے شام و سحر طوفاں |
جہانِ دل میں پیارے! گردشِ ایّام پیدا کر |
ترے جام و سبو سے کچھ نہیں حاصل سکوں مجھ کو |
شفاۓ دردمنداں ہو، وہ جس میں جام پیدا کر |
نگاہیں اصل میں حسن و کشش کی رازداں ہے سو |
نگاہِ شوق میں تُو شوخئی گلفام پیدا کر |
اگر ناکامئی ہستی تری پہلے مقدر ہے |
مگر پھر بھی دلِ یزداں میں اپنا نام پیدا کر |
فقط اتنا نہیں کافی کہ بس عزمِ مصمّم ہو |
ارادوں کے تزلزل میں بھی استحکام پیدا کر |
ازل تیرا سہانہ ہے، ابد بھی جاوداں چاہو |
تو اپنے آپ میں پھر خصلتِ حُکّام پیدا کر |
بہادر ہی جیا کرتا ہے اس حادث کے عالم میں |
خودی میں تو وہی خوابیدۂ ضرغام پیدا کر |
تری فطرت امیں ہے، صادقیّت خاک میں تیری |
تجھے لازم ، درونِ قلب میں اسلام پیدا کر |
چھلک آۓ جو ساغر سے کبھی اک قطرۂ نیساں |
نگاہِ ذوق میں ساقؔی وہ بادہ ؤ جام پیدا کر |
جگادے ہند کے خوابِ سحر گاہی کے نائم کو |
اذانِ صبح بن کر خود میں تو پیغام پیدا کر |
نشیبِ زندگانی میں فرازِ کوہ بن جا تو |
تنِ تنہا خودی میں قدرتِ اقوام پیدا کر |
نظامِ کائناتِ بزم میں آئینِ احمدﷺ بن |
حضورِ یزد میں اہلیتِ انعام پیدا کر |
عطا کر پھر جیالوں کو وہی ذوقِ نمو یارب! |
دیارِ ہند میں شاہانِ مصر و شام پیدا کر |
ترے اندازِ زیبا پر فدا ہو کل جہاں شاہیؔ! |
غزل خواں ! اپنے لہجے میں تُو فہمِ عام پیدا کر |
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن |
معلومات