یہ جو مصلحت کی ادا تری ہے یہ عشق میں تو روا کہاں |
یہ جو سوچ سوچ چلے ہو تم جو فنا نہیں تو وفا کہاں |
یہ تو بات آگے کی ہے کہیں نہ یہ عزم مانگے نہ حوصلہ |
یہ تو ہے عنایتِ ایزدی جو جلا یہ شعلہ جلا کہاں |
یہ جو شرق و غرب کے راز ہیں نہ رہیں گے یہ تو چھپے ہوئے |
یہ تلاش خود کی تو خود میں ہے اسے کھوجتا ہے رہا کہاں |
یہ سفر جو میرا ہے زیست کا ہے سوالوں نے تو تھکا دیا |
یہ عجب ہے راہ بھی جستجو کی رکا کہاں ہے چلا کہاں |
وہ جو چیز گم تھی یہیں کہیں وہی چیز مجھ کو نہ مل سکی |
تو بھی ڈھونڈتا جو اسے کہاں تجھے اس کو ملنا تو تھا کہاں |
یہ ہمایوں عشق کی بات ہے نہ ملے ملے تو بھی کیا ہوا |
یہ تو بے خودی کا ہے فلسفہ تُو ملا بھی ہے تو ملا کہاں |
ہمایوں |
معلومات