چلو لفظوں سے کھیلیں اور ذرا سی ساحری کر لیں
چلو غالب نہیں پھر بھی ذرا سی شاعری کر لیں
چلو ہم راندۂ درگاہ ہیں اب بندگی کیسی
چلو سجدہ کریں بت کو ذرا سی کافری کر لیں
چلو ہم تو فقیرِ شہر ہیں مردہ ضمیر اپنا
چلو سلطان کے اعمال پر اب خودکشی کر لیں
چلو سالار تو اب بک گیا دشمن کے ہاتھوں میں
چلو قیمت لگاؤ ہم بھی تھوڑی مخبری کر لیں
چلو ہم تو مسافر ہیں مگر چلنے سے پہلے ہم
چلو گلیوں کا اک دیدار اب ہم آخری کر لیں

0
79