مجھ کو معاشرے نے سدھرنے نہیں دیا |
جو کرنا چاہتا تھا وہ کرنے نہیں دیا |
مجھ کو ہر اک مقام پہ صدمہ نیا ملا |
دل نے پھر اس مقام سے گذرنے نہیں دیا |
ہر مرتبہ کرید کے پھر تازہ کر دیا |
دل پر جو زخم تھا اسے بھرنے نہیں دیا |
لٹکا رہا میں عمر بھر غم کی صلیب پر |
ظالم کے انتظار نے مرنے نہیں دیا |
اتنا تھا اختیار یہاں محتسب کے پاس |
مجھ پر کبھی وحی کو اترنے نہیں دیا |
سرکس کا شیر جال میں تھا مطمئن بہت |
چوہے کو اس نے جال کترنے نہیں دیا |
نظروں سے گر کے اس کی میں بس ٹوٹتا رہا |
اس کے حصارِ ذات نے بکھرنے نہیں دیا |
شاہد مجھے تلاش نئے ساحلوں کی تھی |
اس ولولے نے مجھ کو ٹھہرنے نہیں دیا |
معلومات