مجھ کو معاشرے نے سدھرنے نہیں دیا
جو کرنا چاہتا تھا وہ کرنے نہیں دیا
مجھ کو ہر اک مقام پہ صدمہ نیا ملا
دل نے پھر اس مقام سے گذرنے نہیں دیا
ہر مرتبہ کرید کے پھر تازہ کر دیا
دل پر جو زخم تھا اسے بھرنے نہیں دیا
لٹکا رہا میں عمر بھر غم کی صلیب پر
ظالم کے انتظار نے مرنے نہیں دیا
اتنا تھا اختیار یہاں محتسب کے پاس
مجھ پر کبھی وحی کو اترنے نہیں دیا
سرکس کا شیر جال میں تھا مطمئن بہت
چوہے کو اس نے جال کترنے نہیں دیا
نظروں سے گر کے اس کی میں بس ٹوٹتا رہا
اس کے حصارِ ذات نے بکھرنے نہیں دیا
شاہد مجھے تلاش نئے ساحلوں کی تھی
اس ولولے نے مجھ کو ٹھہرنے نہیں دیا

0
57