تیار ہو کے گھر سے جو آتے تو خوب تھا
خوشبو جو بن سنور کے لگاتے تو خوب تھا
ہوتی چمن سے معرفت کے آشنائی جب
تم صبح و شام سیر کو آتے تو خوب تھا
لکھتے محبّتوں کے پیام اس کے نام سب
گیت اس کے پیار میں سبھی گاتے تو خوب تھا
شمس و قمر ،فلک کو محبّت سے دیکھتے
تاروں سے دوستی کو بڑھاتے تو خوب تھا
صحرا پہاڑ دشت میں اس کی ستاتی یاد
تم بحر و بر میں اس کو ہی پاتے تو خوب تھا
ظالم کے ظلم سہہ کے جو روتے تھے روز و شب
تم ان سے مل کے ہنستے ہنساتے تو خوب تھا
غربت کی چکیوں میں جو پس کر ہوئے نڈھال
ان کی طرف بھی ہاتھ بڑھاتے تو خوب تھا
رہتے ہوئے خدا کی ساری نعمتوں میں تم
محروم ان سے یاد جو آتے تو خوب تھا
مقصد ہے زندگی کا عبادت خدا کی جب
مخلوق پر بھی رحم جو کھاتے تو خوب تھا
طارق جو پی رہے ہو ،محبّت کی تم شراب
اوروں کو بھی یہ جام پلاتے تو خوب تھا

0
2
153
وااااہ وااااہ

0
پسندیدگی کا بہت شکریہ مسما ناز صاحبہ

0