یہ خود رو نہیں ہے اگایا گیا ہے
اسے اس چمن میں بلایا گیا ہے
مرے دل کے گلشن کو ہر بار مالیؔ!
لہو سینچ کر پھر سجایا گیا ہے
مرے خونِ رگ سے جو رسمِ حنا ہے
مرے سامنے ہی منایا گیا ہے
یہ کیا فلسفہ ہے کہ ہنستا ہی جائے
جسے آتے آتے رلایا گیا ہے
یہ سورج یہ چندا یہ ٹمٹم ستارہ
یہ خود ہی نہیں یہ جلایا گیا ہے
کسی خاص مقصد کے خاطر ہی لوگوں
یہ دھرتی یہ عالم بسایا گیا ہے
یہ گلشن جو ویران تھا کل تلک کہ
ذرا سوچو کیوں یہ سنوارا گیا ہے
خودی میں ہوں ڈوبا ہوا اک ستارہ
مجھے اس جہاں سے چھپایا گیا ہے
میں وہ شاخِ گل ہوں کہ ثانیؔ جسے ہاں
ہزاروں میں یکتا بنایا گیا ہے
غالب ثانی ؔ
ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی

1
136
شکریہ

0