وہ بھی بچھڑ گیا جسے پایا تھا خواب میں
آنکھیں کھلیں تو پھر سے تھیں ویرانیاں وہی
آسودگی کے خواب جو دیکھے تھے کھو گئے
منزل پہ آ کے پھر سے تھیں قربانیاں وہی
غالب نے یہ کہا تھا کہ غم سے نجات ہے
مر کر بھی سکھ نہ تھا تھیں پریشانیاں وہی
شاہد کچھ اپنی عمر کا تم کو لحاظ ہے
پچھلی عمر میں آ کے بھی نادانیاں وہی

0
53