روٹھنا چاہو تو اب ہرگز منانے کا نہیں
دل کو قائل کر لیا آنسو بہانے کا نہیں
راستے دھندلا گئے ہیں روشنی والو سنو
وعدہ جلنے کا کیا تھا ٹمٹمانے کا نہیں
کشتیاں گرداب میں ہیں ناخدا ناراض ہیں
آسمانوں سے کہو بجلی گرانے کا نہیں
کب ڈھلے گی شام غم کب ختم ہوگا ظُلم و جَبر
زندگی انساں کی ہے عنواں فسانے کا نہیں
لو چلے جاتے ہیں خالی ہاتھ دنیا سے امید
یاد کر لینا عزیزو بھول جانے کا نہیں

36