توڑ کر پھر سے بنا لی جائے گی
زندگی نئے سانچے میں ڈھالی جائے گی
یہ خبر تو روز کا معمول ہے
کس کی پگڑی اب اچھالی جائے گی
چاٹ جائے گی وہ دیمک کی طرح
وہ ہوس جو دل میں پالی جائے گی
جنتری سے اب بھروسہ اٹھ گیا
فال غزلوں سے نکالی جائے گی
جینا مرنا روز کا معمول ہے
مر گئے اب جان ڈالی جائے گی
عہدِ پیری میں بھی دل بس میں نہیں
جانے کب یہ لاابالی جائے گی
خونِ دل اب آنکھ سے ٹپکا مری
آنکھ سے اب یہ نہ لالی جائے گی
پیار کی رسمیں پرانی ہم گئیں
رسم ایک اور اب نکالی جائے گی
اب سفر کا حکم صادر ہو گیا
بات دل کی اب نہ ٹالی جائے گی
اس سے اب شاہدؔ تعلق ختم شد !
اب طبیعت یوں سنبھالی جائے گی

0
107