تھم ذرا وقتِ اجَل دیدارِ جاں ہونے لگا |
آخری ہچکی پہ کوئی مہرباں ہونے لگا |
کس ستم گر نے اڑا لی یاد ماضی کی بیاض |
ہر گلی ہر موڑ پر قصہ بیاں ہونے لگا |
جانے کس گل نے چمن کی حرمتیں پامال کیں |
موسمِ فصلِ بہاراں بھی خزاں ہونے لگا |
دفن کر کے قبر میں جب جا چکے احباب دوست |
جو کبھی سوچا نہ تھا وہ امتحاں ہونے لگا |
دست و پا شل ہو گئے ہیں قوتیں زائل ہوئیں |
زندگانی کا سفر آگے رواں ہونے لگا |
خواہشوں کی چاہ میں خسران کے سودے کئے |
منفعت سمجھا جسے آخر زیاں ہونے لگا |
کوئی وعدہ آج تک ایفا نہیں تم نے کیا |
بات سچی تھی مگر وہ بد گماں ہونے لگا |
پاؤں کی آہٹ نے مجھ کو گور میں چونکا دیا |
ہچکیوں کا ساز دل کا ترجماں ہونے لگا |
کیسی خوش فہمی تمہیں کس بات کا غرہ امید |
آ گئے ہیں اقربا وقتِ اذاں ہونے لگا |
معلومات