ہائے ری قسمت تری تصویر نے دھوکہ دیا
خواب تک تو ٹھیک تھا تعبیر نے دھوکہ دیا
ان اجالوں سے تری قسمت چمکنے کی نہیں
یہ اندھیرے ہیں تجھے تنویر نے دھوکہ دیا
پھول ہی چنتے رہے ماں باپ بچّوں کے لئے
بعد ازاں عقدہ کھلا تقدیر نے دھوکہ دیا
چند لمحوں کے توقّف نے ہمیں رسوا کیا
حیف ایسی کاہلی تاخیر نے دھوکہ دیا
بند کمرے میں چلی آئی مَیں کچھ نا کہہ سکا
موت آ پہنچی تو ہر تدبیر نے دھوکہ دیا
آنے والا دَور تیرا ہے فسانے ہیں امید
یہ سلاسل ہیں تجھے زنجیر نے دھوکہ دیا

49