چاک سے دور ، رفو گر تو نہیں جا سکتا
دور مجھ سے مرا دلبر تو نہیں جا سکتا
اے خدا میری خطائیں مری تقدیر میں تھیں
میں ترے حکم سے باہَر تو نہیں جا سکتا
ہاتھ اٹھائے ہیں ترے در پہ جو آ کے تو بتا
ہاتھ خالی لئے مضطر تو نہیں جا سکتا
چاہتا ہوں تجھے مانگوں تو تجھے مانگنے کو
میں کسی اور کے در پر تو نہیں جا سکتا
وہ جو کہتا ہے مجھے ، کہتا جو ہوں دل میں نہیں
چیر کے دل کوئی اندر تو نہیں جا سکتا
علم کے تُو نے خزانے جو کئے ہیں تقسیم
چھوڑ کر کوئی یہ گوہر تو نہیں جا سکتا
ناؤ ڈوبے گی تو اترے گی اسی کے من میں
ناؤ سے دور سمندر تو نہیں جا سکتا
جب بھی دیکھا ہے اسے آتے مدد کو طارق
دور آنکھوں سے وہ منظر تو نہیں جا سکتا

96