دل اب بھی ڈھونڈتا ہے یہ ناصر سعید کو
جنَّت میں دیکھتا ہے یہ ناصر سعید کو
رحمت قدم قدم رہی ساتھ اس کے ہر گھڑی
اجرِ وفا ملا ہے یہ ناصر سعید کو
ناصر کے ساتھ بھی رہا طاہر کے ساتھ بھی
موقع عطا ہوا ہے یہ ناصر سعید کو
مسرور کے حضور بھی حاضر رہا ہے وہ
اعزاز مل گیا ہے یہ ناصر سعید کو
اس نے خود اپنے ہاتھوں اسے الوداع کیا
رُخصت پہ خود کہا ہے یہ ناصر سعید کو
وہ پاسباں رہا ہے خلافت کا عمر بھر
کیا مرتبہ ملا ہے یہ ناصر سعید کو
وہ سیدھا سادہ بندہ بظاہر خدا کا تھا
رب کی ملی رضا ہے یہ ناصر سعید کو
اِخلاص کا نمونہ دکھایا ہے اس نے جو
اونچا ہی لے گیا ہے یہ ناصر سعید کو
وہ تھا دلیر رکھتا فراست کی تھا نظر
کہتے تھے پارسا ہے یہ ناصر سعید کو
ہو گا شمار اس کا شہیدوں میں حشر تک
رُتبہ جو مل گیا ہے یہ ناصر سعید کو
اولاد کو چلا گیا ہے اپنی راہ پر
قدرت کا اک صلہ ہے یہ ناصر سعید کو
اونچا مقام پائے وہ جنَّت میں اے خُدا
طارق سَدا دعا ہے یہ ناصر سعید کو

0
43