تیرہ و تاریک راہیں ہیں نگاہیں خیرہ کن
وعدۂ فردا پہ زندہ ہیں عزیزانِ وطن
ساکنانِ حسرت و درماندگی واللّہ نہ پوچھ
آنسوؤں سے پیاس بُجھتی ہے غذا رنج و محن
اشتہائے بھُوک سے مغلوب ہو جب نازنیں
میری نظروں میں اسی کا نام ہے دَورِ فتن
قُمریاں خاموش ہیں سہمے ہوئے ہیں بال و پر
اس زمانے کے لئے موزوں نہیں سر و سمن
کب تلک شہرِ خموشاں میں سیاسی بازی گر
مقتلوں کو نام دیتے جائیں گے گنگا جمن
نا کہیں دارو نہ روٹی نا کہیں رہنے کو گھر
ننگے پاؤں گھومنا پھرنا فلک سایہ فگن
یا تو ارضِ پاک پر سایہ کسی وحشت کا ہے
یا عزیزانِ چمن کے رُوپ میں ہیں گور کن
ورطۂ حیرت میں ہوں سارے اکابر کیا ہوئے
اُڑ رہے ہیں چرخِ نیلی فام پر زاغ و زغن
ہم نے یہ مانا کہ تم مخلص ہو پاکستان کے
عقل سے پیدل ہو جاؤ بھاڑ میں ننگِ وطن

0
73