کیا لطف ہم کو ساز کے تاروں میں آئے گا
وہ تو سُروں میں راگ ملہاروں میں آئے گا
ہم نے تو خود کو پیش کیا جانتے ہوئے
اُس کو پسند ایک ہزاروں میں آئے گا
ہم نے خزاں گزار دی یہ سوچتے ہوئے
پھر سے گلوں میں رنگ بہاروں میں آئے گا
جن کے سبب سے روشنی پاتے ہیں روز و شب
شمس و قمر کا نور ستاروں میں آئے گا
اکثر غموں سے اس لیے بھی واسطہ رہا
احساس کچھ تو درد کے ماروں میں آئے گا
ہم جانتے ہیں شوق سے آیا تھا وہ قریب
اب اس کا نام بھی تو ہماروں میں آئے گا
طارق نہیں ہے شہر کے لوگوں میں خوش رہا
دہقاں کو لطف کھیت کناروں میں آئے گا

0
60