کیا لطف ہم کو ساز کے تاروں میں آئے گا |
وہ تو سُروں میں راگ ملہاروں میں آئے گا |
ہم نے تو خود کو پیش کیا جانتے ہوئے |
اُس کو پسند ایک ہزاروں میں آئے گا |
ہم نے خزاں گزار دی یہ سوچتے ہوئے |
پھر سے گلوں میں رنگ بہاروں میں آئے گا |
جن کے سبب سے روشنی پاتے ہیں روز و شب |
شمس و قمر کا نور ستاروں میں آئے گا |
اکثر غموں سے اس لیے بھی واسطہ رہا |
احساس کچھ تو درد کے ماروں میں آئے گا |
ہم جانتے ہیں شوق سے آیا تھا وہ قریب |
اب اس کا نام بھی تو ہماروں میں آئے گا |
طارق نہیں ہے شہر کے لوگوں میں خوش رہا |
دہقاں کو لطف کھیت کناروں میں آئے گا |
معلومات