سب آج کی رَو میں بہتے ہوئے وہ دَور پرانا بھُول گئے
وہ اپنی کہانی لے بیٹھے اور میرا فسانہ بھول گئے
جن لوگوں سے تھوڑا ملتے ہیں جب پرکھا اچھّے لوگ ملے
جب جب بھی وفا کا ذِکر چلا کنّی کترانا بھول گئے
دنیا کے جھمیلوں میں ہم سب اس طرح سے غرقِ ناب ہوئے
جینے کی دعائیں یاد رہیں مرنے کا ترانہ بھول گئے
ہر خواب نہیں پُورا ہوتا پر دیکھتے رہنا بہتر ہے
امید پہ دنیا قائم ہے اس راز کو پانا بھول گئے
کب آئے تھے وہ کب جا بھی چکے پر بات تو کوئی کی ہی نہیں
جن کے لئے دستر خوان سجا وہ کھانا کھانا بھول گئے
منزل تو ابھی آئی ہی نہیں امید سے ناتا توڑ لیا
پھر آؤں گا کہہ کر نکلے تھے پر واپس آنا بھُول گئے

0
42