کب ہم نے روٹھ کر گئے پہلے منا لئے
اُس نے بھی امتحان کئی بارہا لئے
برسوں کے رتجگے تھے کہاں خواب دیکھتے
پلکوں پہ اس کی یاد میں موتی سجا لئے
سورج نکل رہا تھا ہمیں آئی اونگھ جب
پھر کھڑکیوں سے ہم نے ہی پردے ہٹا لئے
ہم ہی نہیں تھے اس کی تمنّا میں بے قرار
اس کے بھی آئے کتنے پیمبر پتہ لئے
ہم کیسے بھول پائیں گے وہ موسمِ بہار
آئی تھی فصلِ گل کی مہک جب صبا لئے
آواز کی تو نغمگی ہم سے نہ پوچھئے
جس نے سنی وہ چل پڑا یہ راستہ لئے
محفل میں اُس کا ذکر ہوا جب بھی دوستو
عاشق رقیب بن کے چلے نقشِ پا لئے
طارق وصالِ یار کی صورت کوئی تو ہو
جائیں گے ورنہ ہم کہاں یہ دل دکھا لئے

0
57