کب ہم نے روٹھ کر گئے پہلے منا لئے |
اُس نے بھی امتحان کئی بارہا لئے |
برسوں کے رتجگے تھے کہاں خواب دیکھتے |
پلکوں پہ اس کی یاد میں موتی سجا لئے |
سورج نکل رہا تھا ہمیں آئی اونگھ جب |
پھر کھڑکیوں سے ہم نے ہی پردے ہٹا لئے |
ہم ہی نہیں تھے اس کی تمنّا میں بے قرار |
اس کے بھی آئے کتنے پیمبر پتہ لئے |
ہم کیسے بھول پائیں گے وہ موسمِ بہار |
آئی تھی فصلِ گل کی مہک جب صبا لئے |
آواز کی تو نغمگی ہم سے نہ پوچھئے |
جس نے سنی وہ چل پڑا یہ راستہ لئے |
محفل میں اُس کا ذکر ہوا جب بھی دوستو |
عاشق رقیب بن کے چلے نقشِ پا لئے |
طارق وصالِ یار کی صورت کوئی تو ہو |
جائیں گے ورنہ ہم کہاں یہ دل دکھا لئے |
معلومات