غم سے کچلی ہوئی جوانی سے |
اشک بہنے لگے روانی سے |
ایک ہی بوند پیاس ہو جس کی |
اس کو کیا غرض بہتے پانی سے |
تیری محفل میں روشنی ہے مگر |
رنگ تھا دوستی پرانی سے |
سارے کِردار ایک جیسے تھے |
میں نکل آیا ہوں کہانی سے |
کھینچ لائی ہے جو بڑھاپے تک |
مجھ کو شکوہ ہے اس جوانی سے |
دشت مانی صدائیں دیتے ہیں |
جب سے مانگی ہے پیاس پانی سے |
معلومات