زندگی کا مدّعا پانے کے ہیں کیا کیا طریق
ہو عطا کیونکر لقا،وہ کیا وسائل ہیں دقیق
گر خدا تک ہو پہنچنا ، وہ اٹھانے ہیں قدم
جو کہ سورہ فاتحہ میں روز و شب پڑھتے ہیں ہم
سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ یہ عرفان ہو
قادرِ مطلق ہمارا ہے خُدا ، ایمان ہو
یہ نہ ہو پتھر، پرندہ یا کوئی حیوان ہو
جس پہ ہم ایمان رکھتے ہوں کوئی انسان ہو
جو کبھی اپنے لئے کچھ کر نہ پائے وہ بھلا
کیا کرے گا گر ہماری سُن بھی لے وہ التجا
حسن اور احساں کریں مرعوب ہر انسان کو
جس جگہ دونوں وہیں پر پیار کا امکان ہو
جلوۂ حُسنِ خدا ہر چیز میں پائیں گے ہم
حسن اُس کا کھینچ لے گا جس طرف جائیں گے ہم
اُس کے جو احسان ہیں ہم پر نہیں ان کا شُمار
یاد جب ان کو کریں، دل پھر کہاں پائے قرار
اپنی کوشش سے کوئی کیسے پہنچ پائے کہیں
ہاں دعا کو وہ عموماً مسترد کرتا نہیں
عزم اُس کی ہی عبادت کا جو کر پائیں گے ہم
اُس کی پھر مخلوق کی خاطر اُٹھائیں گے قدم
جو صلاحیّت ملی ہے ، اُس کو نعمت جان لیں
خدمتِ انساں کی ہم ، اچھی طرح سے ٹھان لیں
پھر خدا سے مانگ لیں تو استعانت بھی ملے
چاہئے جو اس عمل پر استقامت بھی ملے
ہم بلا خوف و خطر چلتے رہیں اس راہ پر
پاگئے انعام جو پہلے ، ہو ان کی چاہ، گر
صحبتِ صالح میسّر ہو ہمیں ہر حال میں
چھوڑ دیں جو بد اثر رکھتے ہوں قیل و قال میں
پھر جب آئے گا خدا کا فضل مانندِ بہار
جان لیں گے ہم مخاطب ہو گا وہ پروردگار

34