مجھے منزلوں کی خبر نہ تھی
اسے راستوں کا پتہ نہ تھا
مجھے دشمنی کی ہوا نہ تھی
اسے دوستی کا پتہ نہ تھا
یونہی چل رہے تھے جدا جدا
پھر یوں ہوا کسی موڑ پر
ہوا سامنا
مجھے یوں لگا
میری روح کا
کوئی حصہ جو تھا کٹا ہوا
وہ اس کے اندر مجھے ملا
اسے بھی شاید یہی لگا !
مجھے منزلوں کی خبر ہوئی
اسے راستوں کا پتہ ملا
میرے ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھا
تھوڑا میں ہنسا
تھوڑا وہ ہنسا
ہوئی اب سفر کی جو ابتدا
نہ ہی وہ رکا ، نہ ہی میں رکا
وہ سفر تو ہم کو بھلا لگا
یونہی چلتے چلتے چلے گئے
سفر آدھا ایسے ہی کٹ گیا
پھر اس کے بعد نجانے کیا ہوا
کسی بد نظر کا فریب تھا
نجانے کیسا ایک آسیب تھا
یا تھا قسمتوں میں لکھا ہوا
یا لگی ہمیں کوئی بد دعا !
پھر یوں ہوا
وہ دن تو تھا کوئی عام سا
کوئی بھولی بھٹکی سی اک گھٹا
اپنے راستے پہ برس گئی
تھوڑا وہ رکا ، تھوڑا میں رکا
شاید اس نے دی تھی مجھے صدا
میں نہ سن سکا ۔ ۔ ۔ ۔
پھر ہمارے درمیاں آ گئی
رنجشوں کی کوئی وبا
پھر شروع ہوا نیا سلسلہ
کبھی وہ خفا
کبھی میں خفا
اسی کشمکش میں رہے سدا
کئی ماہ و سال گذر گئے
ہمارے راستے کہیں موڑ تھا
وہاں وہ مڑا
یا میں مڑا !
پھر وہاں سے ہم ہوئے یوں جدا
نہ اسے گلہ - نہ مجھے گلہ
اور اب
اپنے راستے ہیں جدا جدا
مجھے منزلوں کی خبر نہیں
اسے راستوں کا پتہ نہیں
میری روح کا
کوئی حصہ جو تھا کٹا ہوا
وہ اپنے ساتھ ہی لے گیا ----- !

0
139