نور سے آشنا نہیں ہوتا
جب تلک دل دیا نہیں ہوتا
اس پہ بیتی نہیں جو کہتا ہے
عشق صبر آزما نہیں ہوتا
اب کے کیسی بہار آئی ہے
زخم کوئی ہرا نہیں ہوتا
زہر سے بھی علاج ممکن ہے
زہر گرچہ دوا نہیں ہوتا
ہجر ہو یا وصال کا عالم
اب وہ پہلا مزا نہیں ہوتا
تیز ہوتی تھی دیکھ کر دھڑکن
کب سے یہ حادثہ نہیں ہوتا
آئے بادَل جو کوئی دھرتی پر
اب تو دریا بھرا نہیں ہوتا
مستقل کون اس میں رہتا ہے
جب مکاں گھر بنا نہیں ہوتا
کوئی جائے سفر کو اب کیونکر
واپسی در کھلا نہیں ہوتا
دشمنوں کی یہ ساری سازش ہے
ورنہ مجھ سے گلہ نہیں ہوتا
جان و دل جب سے تُجھ پہ وار دیا
کوئی لمحہ بُرا نہیں ہوتا
میرا تیرے سوا مرے مولا
کوئی بھی آسرا نہیں ہوتا
طارق اب تو خدا کے خانے میں
کوئی اس کے سوا نہیں ہوتا

0
63