سفر نامہ |
سجی تھی محفلِ شاہی تھا بیٹھا اپنے یاروں میں |
ہو جیسے چاند روشن آسماں کے بیچ تاروں میں |
سکوتِ شب کو توڑا چھیڑ کر کے داستاں ایسی |
تھا چرچہ جس کا شب کے قصہ گو کے تاجداروں میں |
وہ نظارہ مگر کیسے بیاں تجھ سے کروں سامر! |
جو کھلتے پھول کو دیکھا ہے دل کے ریگزاروں میں |
جو دیکھا میں نے اے دل! کیا عجب دلگیر منظر تھا |
کشش ویسی کہیں واللہ نہیں ہے آبشاروں میں |
تبسم اس حسیں کا کس قدر جاں آفریں نکلا |
کلی کھلنے لگی غنچوں سے ہوکر لالہ زاروں میں |
ہوئی شبنم کی بارش اس حسینِ گل بدن پر جب |
تو جاں آنے لگی تھی آں جفاکش خارداروں میں |
ہوا بے خود میں اس روشن جبیں کو دیکھ کر ہمدم |
کرن بہنے لگی تھی جب ندی کی تیز دھاروں میں |
حسیں ہے حسن پر نازاں کشش تصویر پر شیدا |
نمایاں شوخیاں کتنی ہیں اس کے شاہکاروں میں |
گلوں کی شوخ رنگت کا کلی کی خوشنمائی کا |
دکھایا مجھ کو قدرت نے تماشا مرغزاروں میں |
غرض میں کیا لکھوں شاعر چمن کے رازِ مضمر کو |
سرورِ جان پنہا ہے بلا کے اِن نظاروں میں |
کسی کی آنکھ کا تارا مگر ممکن نہیں اے دل ! |
کھٹکتا ہوں نگاہوں میں کہ شامل ہوں شراروں میں |
نگاہیں اشکِ پیہم سے قرارِ جاں کا نذرانہ |
دئے جاتی ہیں ہوتا ہوں جو میں بھی غم کے ماروں میں |
میسر جو ہوا مجھ کو خزاں انگیز نفرت سے |
کہاں کھلتے ہیں ایسے گل محبت کے بہاروں میں |
نہ جانے کیا پسند آئی مری ناقص سی ہستی میں |
جو قدرت نے کیا شامل مجھے بھی رازداروں میں |
یہ فیضانِ محبت ہی کا ثمرہ ہے کہ خوش دل ہوں |
سکوں مجھ کو ہوا حاصل تھا کب سے بیقراروں میں |
ہے فضلِ بے بہا اس کا یہ احسانِ مسلسل ہے |
ملایا مجھ کو رفعت سے کہ تھا میں خاکساروں میں |
یہ فکرِ قوم و ملت کا صلہ ہے اے جگر والو ! |
مری کمزور ہستی ہے نمایاں شہسواروں میں |
میرے حسنِ تخیل کو جو دیکھا شب کی آنکھوں نے |
لچک ہونے لگی رہ رہ کے پیدا ماہ پاروں میں |
مسافر شب کے نظارے سے کیسا لطف لیتا ہے |
ہوں گویا آنکھ میں تارے لئے یہ اندھیاروں میں |
سرور و فرحت و مستی سفر میں پاۓ جو میں نے |
نہیں ممکن یہ شادابی حضر کے شاخساروں میں |
کہیں ہلکی سی تاریکی کہیں ٹم ٹم اجالا تھا |
سیاہی چھوڑ کر شب کو گئی تھی جانثاروں میں |
امیدِ وصل میں آخر شبِ فرقت ہوئی رخصت |
نمودِ صبح کی ہلکی جھلک تھی کوہساروں میں |
فراق و جستجو جب وصل کی باہوں میں آتا ہے |
عجب سی کیف ملتی ہے نفس کو اپنے پیاروں میں |
معلومات