تنہائی میں آکر وہ رلایا نہیں کرتے |
اب ان کے خیالات ستایا نہیں کرتے |
اُڑ جائیں پرندے جو نشیمن سے سحر کو |
ہر شام تو گھر لوٹ کے آیا نہیں کرتے |
ان دل کے خزانوں کو رکھو تالے لگا کے |
موتی سرِ مژگاں تو لُٹایا نہیں کرتے |
وہ تیر نگاہوں سے چلاتا ہے ستم گر |
شمشیر مقابل میں چلایا نہیں کرتے |
ہم چشمِ تصوّر میں انہیں دیکھتے جائیں |
آ ئیں تو بہت دیر وہ جایا نہیں کرتے |
شکوہ ہے جنہیں ہم سے وفادار نہیں ہیں |
وہ اپنی کہانی تو سنایا نہیں کرتے |
سیکھا ہے محبّت میں فنا ہونا اسی سے |
اندیشۂ جاں اس کو بتایا نہیں کرتے |
طارق کو محبّت نے بنایا نہیں بزدل |
جاں دے کے مگر شور مچایا نہیں کرتے |
معلومات