ذکر جب اُس کا سنا دل مرا مسرور رہا
وہ تو جس کرسی پہ بیٹھا وہاں منصور رہا
ذکر الہام میں آیا تھا شریف احمد کا
بادشہ ، تخت پہ بیٹھا وہ بدستور رہا
وہ یہاں فرض نبھانے کے لئے آیا تھا
چاہتا کب تھا ، یہاں رہنے پہ مجبور رہا
جس کو توفیق ہوئی دوڑا چلا آیا وہ
کون محبوب کے قدموں سے بھلا دور رہا
جب اُجالا ہو تو کچھ رات کا منظر بدلے
واپسی تب ہو زمانے کا یہ دستور رہا
جس نے وعدہ تھا کیا ساتھ رہا ہے اس کے
امن کا بن کے نمائندہ وہ مشہور رہا
جب پکارو اسے وہ جلوہ دکھاتا ہے خدا
اس کا شاہد ہوا سینین میں ہے طور رہا
تھا جو محبوبِ خدا ، گرچہ وہ تھا درِّ یتیم
بادشہ بن کے مدینے کا وہ مشہور رہا
اس کو ہر وقت میسّر تھی فرشتوں کی مدد
معجزے دیکھ کے ہر شخص ہی مسحور رہا
خانہ کعبہ کے بھی معماروں کے صدقے جائیں
تھا نبی باپ ، نبی بیٹا بھی مزدور رہا
اپنے بیٹے کی جو قربانی کو تیّار ہوا
نشّہ توحید کا تھا جس میں وہ مخمور رہا
طارق اب اُس سے تعلّق ہی بچائے گا ہمیں
ایک عرصے سے ، زمانے سے جو مستور رہا

0
13