سحر ہماری بھی ہر روز شام ہوتی رہی
یہ زیست گر چہ تمہارے ہی نام ہوتی رہی
رموزِ عشق سمجھنے کا حوصلہ نہ ہوا
جنوں سے گرچہ خرد ہمکلام ہوتی رہی
مسیحا آ گیا ایفائے عہد کرنے کو
اسی کے حکم سے تیغ اب نیام ہوتی رہی
مخالفوں نے اٹھایا تھا شور پھر اک بار
فریب و مکر کی سازش تمام ہوتی رہی
جو ابتدا میں صداقت کو مان لیتے ہیں
انہی کی زیست ہمیشہ حرام ہوتی رہی
جہاں میں آج ہوئے ہیں جو نفرتوں کے سفیر
عدو سے ان کی دعا و سلام ہوتی رہی
محبتوں نے جگہ دل میں اب بنائی ہے
کہ دھیرے دھیرے یہ تعلیم عام ہوتی رہی
خدا کرے کہ ہدایت نصیب ہو سب کو
دعا ہماری یہ طارق مدام ہوتی رہی

1
79
پسندیدگی کا بہت شکریہ رابیل صاحب اور خالد سلیم صاحب

0