سحر ہماری بھی ہر روز شام ہوتی رہی |
یہ زیست گر چہ تمہارے ہی نام ہوتی رہی |
رموزِ عشق سمجھنے کا حوصلہ نہ ہوا |
جنوں سے گرچہ خرد ہمکلام ہوتی رہی |
مسیحا آ گیا ایفائے عہد کرنے کو |
اسی کے حکم سے تیغ اب نیام ہوتی رہی |
مخالفوں نے اٹھایا تھا شور پھر اک بار |
فریب و مکر کی سازش تمام ہوتی رہی |
جو ابتدا میں صداقت کو مان لیتے ہیں |
انہی کی زیست ہمیشہ حرام ہوتی رہی |
جہاں میں آج ہوئے ہیں جو نفرتوں کے سفیر |
عدو سے ان کی دعا و سلام ہوتی رہی |
محبتوں نے جگہ دل میں اب بنائی ہے |
کہ دھیرے دھیرے یہ تعلیم عام ہوتی رہی |
خدا کرے کہ ہدایت نصیب ہو سب کو |
دعا ہماری یہ طارق مدام ہوتی رہی |
معلومات