ہم اُس کے لئے کب دنیا کے احسان اُٹھائے پھرتے ہیں |
ہم تو اس نور کی مشعل کو گھر گھر میں جلائے پھرتے ہیں |
قرباں کر کے سب آشائیں اور اپنے سارے جذبوں کو |
اس دل میں تُجھی سے ملنے کے ارمان سجائے پھرتے ہیں |
کس کس نے دل رنجُور کیا زخموں سے سینہ چُور کیا |
اپنوں سے ہم کو دور کیا گھر بار لُٹائے پھرتے ہیں |
ہم نے تو کبھی شکوہ نہ کیا آنسو بھی لئے سجدوں میں بہا |
ہم کو تو وہی کافی ہے رہا باقی تو پرائے پھرتے ہیں |
جان اس نے دی سو اس کی ہوئی منزل تو پائی ہم نے بھی |
ہم دین کی خاطر کب ساری دنیا ٹھکرائے پھرتے ہیں |
گر چاک گریباں ہو نہ سکے لیلیٰ کو نہیں شکوہ ہم سے |
مجنوں جو نہیں کیوں عاشق سے حالات بنائے پھرتے ہیں |
ہم اپنے وطن کی باتیں اب پردیس میں بیٹھے کس سے کریں |
ہم کیا بتلائیں گلیوں میں کس کس کے ستائے پھرتے ہیں |
طارق اک تیرے کہنے سے ہو گا بھی اگر تو کیا ہو گا |
کچھ اور بڑھیں گے ان کے ستم جو اب تک ڈھائے پھرتے ہیں |
معلومات