کب تمنّا تھی کہ میں صاحبِ ثروت ہوتا
ہاں ! تِرا ہونا مجھے باعثِ عزّت ہوتا
اک محبّت کا ہی جذبہ لئے پھرتا ہے مجھے
ورنہ میں کب کا جہاں چھوڑ کے رخصت ہوتا
ساتھ دو چار قدم چلنا، وفا داری نہیں
ہر قدم ساتھ تِرا ، میری سعادت ہوتا
سب جہاں چھوڑ کے رہتا میں فقط تیرے پاس
زندگی کا مری مقصد تری خدمت ہوتا
تُجھ کو ہوتا نہ اگر میری محبّت کا یقیں
میں بھی ویرانے میں بیٹھا سرِ وحشت ہوتا
کچے دھاگے سے بندھا ، دوڑا چلا آتا میں
تُو بلاتا تو میں حاضر یوں بہ عُجلت ہوتا
تیرے کہنے سے عبادت کو مقدّم رکھتا
گو جہاں سارا بھی اس کے لئے غارت ہوتا
گر نہیں ایسا میں طارق ، یہ تمنّا ہے مری
میں نے جو سوچا ہے ، اے کاش نہ حسرت ہوتا

1
34
بہت شکریہ شہاب صاحب

0