کب تمنّا تھی کہ میں صاحبِ ثروت ہوتا |
ہاں ! تِرا ہونا مجھے باعثِ عزّت ہوتا |
اک محبّت کا ہی جذبہ لئے پھرتا ہے مجھے |
ورنہ میں کب کا جہاں چھوڑ کے رخصت ہوتا |
ساتھ دو چار قدم چلنا، وفا داری نہیں |
ہر قدم ساتھ تِرا ، میری سعادت ہوتا |
سب جہاں چھوڑ کے رہتا میں فقط تیرے پاس |
زندگی کا مری مقصد تری خدمت ہوتا |
تُجھ کو ہوتا نہ اگر میری محبّت کا یقیں |
میں بھی ویرانے میں بیٹھا سرِ وحشت ہوتا |
کچے دھاگے سے بندھا ، دوڑا چلا آتا میں |
تُو بلاتا تو میں حاضر یوں بہ عُجلت ہوتا |
تیرے کہنے سے عبادت کو مقدّم رکھتا |
گو جہاں سارا بھی اس کے لئے غارت ہوتا |
گر نہیں ایسا میں طارق ، یہ تمنّا ہے مری |
میں نے جو سوچا ہے ، اے کاش نہ حسرت ہوتا |
معلومات