نکہتِ گل سے مہک جائے گلستاں میرا
تم چلے آؤ تو ہو جشنِ بہاراں میرا
نور ہی نور اُتر آئے مرے آنگن میں
جگمگائے یوں ستاروں سے شبستاں میرا
تیرگی رات کی بھاگی ہے بڑی تیزی سے
جب فلک پر نظر آیا مہِ تاباں میرا
دور مایوسی ہوئی دل کی ہے امّید بڑھی
دیکھ کر تُجھ کو ہوا چہرہ درخشاں میرا
تیری تعریف میں الفاظ کبھی ساتھ نہ دیں
لکھتے لکھتے جو ہوا خشک قلم داں میرا
عشق میں جس کے جنوں عقل سے آگے نکلا
اس نے دیکھا ہی نہیں چاک گریباں میرا
میں نے رکھا ہے ندامت پہ بھروسا اپنا
نرم کر دے گا اسے ہونا پشیماں میرا
طارق انجام تو معلوم ہے پہلے سے اسے
اس کی خواہش ہے کہ ہو نام نمایاں میرا

0
147