ہم نے کہاں اس جُرم سے انکار کیا ہے
تیّار ہیں بھگتیں گے سزا پیار کیا ہے
سوداگری کا شوق گو ہم کو بھی نہیں تھا
سودا دلوں کا ہم نے بھی اک بار کیا ہے
اس عشق میں ہی آدمی ہیں کام کے ہو ئے
وہ تو نہیں یہ عشق کہ بیکار کیا ہے
منزل جو نظر آئی ہماری ہمیں تو کیا
طے راستہ بھی ہم نے ہی دشوار کیا ہے
اس زندگی کو کھیل سمجھ بیٹھے جو کچھ لوگ
کیا کیا نہ تماشہ پسِ دیوار کیا ہے
جنَّت کی سمجھ ہے نہ جہنّم کا جسے ڈر
کس نے اسے حوروں کا طلب گار کیا ہے
اس نے جو بتائی ہے اسی راہ پہ ڈھونڈو
اس نے تو وہیں وصل کا اقرار کیا ہے
طارق ہے وہی ذات محبّت کے تو قابل
آساں اسی نے ہجر کا آزار کیا ہے

0
72