ہم نے کہاں اس جُرم سے انکار کیا ہے |
تیّار ہیں بھگتیں گے سزا پیار کیا ہے |
سوداگری کا شوق گو ہم کو بھی نہیں تھا |
سودا دلوں کا ہم نے بھی اک بار کیا ہے |
اس عشق میں ہی آدمی ہیں کام کے ہو ئے |
وہ تو نہیں یہ عشق کہ بیکار کیا ہے |
منزل جو نظر آئی ہماری ہمیں تو کیا |
طے راستہ بھی ہم نے ہی دشوار کیا ہے |
اس زندگی کو کھیل سمجھ بیٹھے جو کچھ لوگ |
کیا کیا نہ تماشہ پسِ دیوار کیا ہے |
جنَّت کی سمجھ ہے نہ جہنّم کا جسے ڈر |
کس نے اسے حوروں کا طلب گار کیا ہے |
اس نے جو بتائی ہے اسی راہ پہ ڈھونڈو |
اس نے تو وہیں وصل کا اقرار کیا ہے |
طارق ہے وہی ذات محبّت کے تو قابل |
آساں اسی نے ہجر کا آزار کیا ہے |
معلومات