نظر دوڑا کے دیکھو ہر زماں میں
ہے رخنہ کیا کوئی کون و مکاں میں
زمیں کا حسن صحرا اور دریا
ہیں روشن چاند تارے آسماں میں
غنیمت ہے کہ مل بیٹھے یہاں سب
بہت سے اور بھی ہیں کارواں میں
زمانے کو نہیں فرصت ذرا بھی
بھلا رکھا ہے کیا عِشقِ بتاں میں
جنوں میں ہوش کی باتیں اگر ہوں
کوئی گہرا سبق ہو داستاں میں
مری یادوں میں آکر شور کرنا
نہیں آداب اس آہ و فغاں میں
رہی اک شاخِ دل اب تک ہری ہے
ہوئے ہیں زرد پتّے گلستاں میں
“الٰہی ایک دل کس کس کو دوں میں”
ہیں اتنے چاہنے والے جہاں میں
تری سب خواہشیں پوری ہوں طارق
نہاں ہو جائے گر یارِ نہاں میں

58