زمین و آسماں ، گردش میں رہتے ہیں جو سیّارے
یہ صحرا ، دشت و دریا ، کوہ و میداں کیوں بنے سارے
برستا ہے جو بادَل وہ تو پانی ایک ہی لائے
ہے میٹھا پانی دریا کا ، سمندر کیوں ہوئے کھارے
کئے مالک نے دانے ، کھیت میں ، باغوں میں پھل پیدا
تری تخلیق کی خاطر چلے یہ سلسلے سارے
نہ پائے سُقࣿم کوئی تُو گُھما کر دیکھ نظروں کو
یہ تھک کر لوٹ آئیں گی ، جو دیکھیں سب یہ نظّارے
تجھے اے حضرتِ انساں کبھی فرصت ملے گر تو
ذرا سوچے ، ہے مقصد کیا تری تخلیق کا پیارے
اگر تو کھانا پینا ، جاگنا ، سونا ، ہی مقصد تھا
مویشی تھے بہت یہ کام کرنے کو یہاں سارے
جو صنّاعی شہد کی کر رہی ہے ایک مکھّی یاں
تجھے اب تک ملی توفیق کیوں نہ اب تلک پیارے
جو کیڑا ایک ، ریشم پیدا کرتا ہے بہت اعلیٰ
بنانے میں وہ خوبی ، تیرے حیلے ہیں سبھی ہارے
عطا کر کے دماغ ایسا ، پہنچ جس کی خدا تک ہے
تجھے اشرف بنایا تا کہ پہچانے اُسے پیارے
تِرا اس سے تعلق ہو محبّت کا ، جو دیکھے تُو
جہاں میں حُسن و احساں کے سبھی پھیلے جو نظارے
ترے دل میں بھی ہمدردی ہو کوئی نوعِ انساں سے
پرندے بھی اکٹھے ہوں ، مصیبت کے ہوں گر مارے
جو آنکھیں عقل کی کھولیں نظر آتا ہے وہ ہر سُو
عیاں جیسے ہو سورج دن میں ، چمکیں رات میں تارے
خبر پاتا ہے انساں کہکشاؤں کی ، یہاں بیٹھے
کیا روشن دماغ ایسا ، اُڑائے ہم نے طیّارے
خدا کا فضل ہو طارق ، تبھی یہ دل منوّر ہو
نہیں بہتے وگرنہ اس طرف یہ نور کے دھارے

0
44