جب وطن میں ہی ہمارے خون ارزاں ہو گئے |
ہم بہ مجبوری سپُردِ ارضِ ہجراں ہو گئے |
ہم نے آدابِ محبّت سیکھ کر اتنا کیا |
ہم مثالِ خاکِ راہِ شہرِ جاناں ہو گئے |
اس جہاں میں تیری لو سے جو دئے روشن ہوئے |
تیرگی میں نور کی کرنوں کے ساماں ہو گئے |
ہم تری خاطر تواضع سے ہوئے ہیں مستفیض |
جب زہے قسمت تری گلیوں کے مہماں ہو گئے |
تیرے گلشن سے جو شیریں تھے ثمر جب کھا لئے |
جھولیاں بھر کے روانہ شہرِ خوباں ہو گئے |
ضبط میں بیٹھے رہے پر جب نظر تُجھ پر پڑی |
ٹوٹ کر برسے ہیں ایسے ابرِ باراں ہو گئے |
دیکھ کر تیری محبّت سارے غم رُخصت ہوئے |
ہم تسلّی کے لئے آئے تھے حیراں ہو گئے |
کون ایسے چاہتا ہو گا تجھے پردیس میں |
طارق اُس سے رُو برو ملنے کے ساماں ہو گئے |
معلومات