جسے دیکھو پڑی ہیں ذات کی فکریں
جئے یا کوئی مرے پھر بھی نہ روئیں
ہو چلے خود غرض سارے یہاں تو
برے بھی وقت نظر اپنی ہٹائیں
ہے بپا روز تماشہ بھی نیا سا
کبھی غربت کبھی افلاس ستائیں
رہے مجبوری تو لے فائدہ دنیا
دبے رہتے بڑے دکھ و غم بھی اٹھائیں
یہ ستم اور نہیں تو کہے کیا اب
بے سہارا پہ بھی جب ظلم وہ ڈھائیں
ہمیں ناصر ہیں فقط کرب زدہ سے
کسے معلوم جہاں کیا رکھیں نالیں

0
75