رفاقت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
کہ اُلفت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
خلافت کا جو پہنا تاج سر پر
ارادت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
ترے اخلاق کا ہے یہ کرشمہ
کرامت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
عداوت تھی جنھیں تُجھ سے ، انہیں اب
عقیدت تُجھ سے ہوتی جارہی ہے
کھڑے ہیں دیکھنے جو لوگ اتنے
قیامت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
دلِ ناداں تجھے کہتا ہے اپنا
محبّت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
سرِ بازار دل کو بیچ ڈالا
کہ بیعت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
اُسے جو اب تلک تُجھ کو نہ سمجھا
رقابت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
مریضِ عشق کا تُو چارہ گر ہے
طبابت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
لکھی دل پر کتابِ عشق میرے
قَراءَت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
تجھے دیکھے تو دل رُک رُک کے دوڑے
کہ قربت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
پگھل جاتی ہے دل کی جو سیاہی
حرارت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
عبادت ہے تری صحبت کہ دل میں
طہارت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
غنیمت ہیں مجھے دو چار لمحے
قرابت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
سعادت بیٹھنا قدموں میں تیرے
سیادت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے
بشارت ہو تجھے طارق جو اُس کی
اطاعت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے

0
4
152
سر یہ بتائیں گے کہ "وہ دعوت تُجھ سے ہوتی جا رہی ہے " کا کیا مطلب ہوتا ہے؟


0
دعوت سے مراد یہاں دعوت الی اللہ ہے

0
جناب میری مراد ہے اس ترکیب سے ہے۔ دعوت تجھ سے ہوتی جارہی ہے غلط اردو ہو گی۔
دیکھیۓ دعوت دی جاتی ہے یا کی جاتی ہے - ہوتی جاتی نہیں۔ اور اگر ہم دعوت ہونے کی بات کریں تو اس کا ضمیر تجھ نہیں ہوتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کے مجھے آج تجھ سے دعوت ہے - ہم کہتے ہیں تمھاری طرف سے دعوت ہے ٓ
اسپر آپ نے جا رہی ہے بھی لکھا - یہ اگر امر کا صیغہ ہے تو غلط اردو ہوئ اور اگر جمع کا صیغہ ہے تب بھی غلط اردو ہوئ-
بس اسی طرف دھیان دلانا تھا۔ اگر میں نے غلط لکھا ہے تو اصلاح کر دیں

0
تبدیلی کر دی ہے ۔ توجہ دلانے کا بہت شکریہ راشد صاحب

0