غزل
وصالِ یار کا سودا سمایا سر میں رہا
یہی سبب تھا کہ حالاتِ پُر خطر میں رہا
چراغِ بام ، ہواؤں کی دسترس میں تھا
تمام عمر کھٹکتا کسی نظر میں رہا
جو خوش نصیب تھے وہ جلد پاگئے منزل
میں گھر سے نکلا تو پھر عمر بھر سفر میں رہا
اگرچہ ہجر میں کتنے ہی دن گزارے ہیں
تمہیں جو دل میں بٹھایا تو اپنے گھر میں رہا
طلسم دیکھ کے چہرہ ، ہوا ہے کچھ ایسا
ہُوا نہ فیصلہ ، دل بس اِدھر اُدھر میں رہا
کِھلا ہے گل تو مہک چار سُو چمن میں ہے
اداس شب تھی ، بڑا لطف گو سحر میں رہا
سفر طویل تھا طارق ملا یہ اُس کا صلہ
نہ فاصلہ کوئی مالک میں اور بشر میں رہا

58