غزل |
وصالِ یار کا سودا سمایا سر میں رہا |
یہی سبب تھا کہ حالاتِ پُر خطر میں رہا |
چراغِ بام ، ہواؤں کی دسترس میں تھا |
تمام عمر کھٹکتا کسی نظر میں رہا |
جو خوش نصیب تھے وہ جلد پاگئے منزل |
میں گھر سے نکلا تو پھر عمر بھر سفر میں رہا |
اگرچہ ہجر میں کتنے ہی دن گزارے ہیں |
تمہیں جو دل میں بٹھایا تو اپنے گھر میں رہا |
طلسم دیکھ کے چہرہ ، ہوا ہے کچھ ایسا |
ہُوا نہ فیصلہ ، دل بس اِدھر اُدھر میں رہا |
کِھلا ہے گل تو مہک چار سُو چمن میں ہے |
اداس شب تھی ، بڑا لطف گو سحر میں رہا |
سفر طویل تھا طارق ملا یہ اُس کا صلہ |
نہ فاصلہ کوئی مالک میں اور بشر میں رہا |
معلومات