عشق میں فناء کا انتخاب کر لیا
ناخدا کے قرب سے اجتناب کر لیا
ہم نے اپنا ایک الگ ہی نصاب کر لیا
عشق کا حساب جو بے حساب کر لیا
پھر کسی سراب کی سمت میں نہ جاؤں گا
عہد تجھ سے دوریوں کا جناب کر لیا
یہ جو ہیں حقیقتیں جھوٹ پر کھڑی ہیں یہ
زندگی کو ہم نے اب ایک خواب کر لیا
عہد و پیماں ڈھارسیں یہ تکلفات ہیں
کیوں وفا کے جرم کا ارتکاب کر لیا
اب کے تیری آنکھ نے سچ بتا دیا مجھے
اب کے تیرا جھوٹ بھی لاجواب کر لیا
قربتوں کا دور اب الوداع ہو گیا
کج ادائیوں کا اب احتساب کر لیا
بے شمار راز جو کھل رہے ہیں مجھ پہ اب
ہم نے تیری ذات سے جو حجاب کر لیا
ہیں کمال منزلیں جستجو کی راہ پر
میرا جو سوال تھا وہ جواب کر لیا
راحتیں بھی مل گئیں اور سکون ہے مجھے
راحتوں نے مجھ سے اب جو نقاب کر لیا
ہے کمالِ عشق یہ جستجو کا معجزہ
ایک نقطے کو جو ہم نے تو باب کر لیا
قرب کی فضیلتیں بھی ہیں یہ کمال کی
اک ستارے کو جو اب آفتاب کر لیا
بات کرنے میں بھی ہے اک جھجک ہمایوں کو
پھر بھی اس نے خود سے تو اک خطاب کر لیا
ہمایوں

0
25