تم ہم سے شکایت کرتے ہو کس نے یہ کہا خاموش رہو
ہم بولے جب تو دھیرے سے یہ کہہ بھی دیا خاموش رہو
منہ کھولو جب تو تم ساری سچی باتیں ہی کرتے ہو
سچ کہنے سے کٹتا ہے گَلا پھر کیا ہے گِلہ خاموش رہو
سقراط کے قدموں پر چل کر تم زہر کا پیالہ پی جاؤ
ہے باقی کیا کہنے کو بچا اچھا یا برا خاموش رہو
ہم تم کو دعائیں دیتے ہیں جب بھی تم اپنے گھر جاؤ
تم ان کی سُنو اپنی نہ کہو چھوڑو شکوہ خاموش رہو
جو تمُ نے مظالم دیکھے ہیں تاریخ گواہی دے ان کی
کیا کیا نہ ستم چپکے سے سہا جب تم سے کہا خاموش رہو
اس راہ پہ چلتے چلتے تم اک دن منزل کو پا لو گے
تم اس در پر چپکے سے جُھکو مانگو جو دعا، خاموش رہو
تم سے پہلے بھی لوگ کئی اس راہ پہ اپنی جاں سے گئے
طارق تم سب کچھ جانتے ہو پھر کہنا کیا خاموش رہو

0
1
112
پہلے مصرعہ میں شکایت کرتے رہو میں "ر" نہیں ہے۔۔ باقی غزل اچھی ہے۔
تم ہم سے شکایت کرتے (رہو) کس نے یہ کہا خاموش رہو

0