اس سے ملنے کی بہت تھی آرزو |
ہم نے داؤ پر لگا دی آبرو |
وہ چمن کی سیر کو جب چل دیا |
تتلیوں نے کی اُدھر کی جستجُو |
گالیاں سن کر دعا دی اس نے جب |
کی فرشتوں نے پھر اس سے گفتگو |
ہر زماں ہر سمت میں دیکھا کیا |
کم ہی دیکھا اُس سا کوئی خوبرو |
تیرگی میں جب ہوا روشن چراغ |
روشنی پھیلی اسی سے چار سُو |
چاہنے والے بھی ہیں دشمن بھی ہیں |
آخرش عاشق ہی ہوں گے سرخرو |
جاں کی قربانی ہوئی ہے ناگزیر |
حق کی خاطر کب نہیں بہتا لہو |
ہاں مگر وہ رنگ لائے گا ضرور |
وہ لہو آئے گا اک دن رُو برو |
طارق اب چشمے سے آگے بڑھ گئی |
بن گئی دریا ، ذرا سی آبِ جُو |
معلومات