تمھارے بعد دلِ بے قرار کیا کرتے |
کسے دکھاتے چشم اشکبار کیا کرتے |
نئی رتوں میں بھی وہ پھول تھے پرانے ہی |
بہارِ نو کا ہم اب انتظار کیا کرتے |
اب اپنے پاس لٹانے کو کچھ بچا ہی نہیں |
سو گھر کو لوٹ گئے سوئے دار کیا کرتے |
ہم اب کی بار گرے ایسے اٹھ نہیں پائے |
اب اور گردشِ لیل و نہار کیا کرتے |
بہا کے لے گئیں طغیانیاں کچھ ایسی تھیں |
زمین ہی نہ رہی کوہسار کیا کرتے |
محبتوں کے زخم اتنے تھے جسم پر شاہد |
کہاں لگاتے زخم اور شمار کیا کرتے |
معلومات