غمِ دوراں کے سبب کب ، غمِ جاناں سے گئے |
کب غریبی میں شہنشاہی کے ساماں سے گئے؟ |
دل کی رونق کا سبب سارے مرے اپنے تھے |
اُن سے کیا شکوہ وہ گھر چھوڑ کے ویراں سے گئے |
اب کوئی آئے نہ آئے کسے پروا ہو گی |
منتظر جس کے ہوا کرتے تھے ، مہماں سے گئے |
ہائے افسوس ! سنا تم نے رقیبوں نے کہا |
وہ جو گھر آئے ہمارے ذرا نالاں سے گئے |
پوچھ مت قیمتِ ہجرت جو چُکائی ہم نے |
جب وطن لوٹے کئی ایسے تھے جو ماں سے گئے |
تھام کے بیٹھے رہے آس کی ڈوری ہم بھی |
یہ تبھی چھوٹے گی طارق جو کبھی جاں سے گئے |
معلومات