کچھ ہم سے دوستوں کو شکایت ہوئی ہے کیا |
اب اور کوئی نظرِ عنایت ہوئی ہے کیا |
حسنِ بیاں میں بڑھ گئے وہ اپنی ذات سے |
اب کےتو پیش اک نئی آیت ہوئی ہے کیا |
الزام دے رہے تھے ہمیں بات بات پر |
ان کی بھی اب کہیں سے حمایت ہوئی ہے کیا |
کہنے کو وہ بڑے ہی روا دار ہیں مگر |
ہم سے کبھی ذرا بھی رعایت ہوئی ہے کیا |
ان کو نہیں ہے وقت ملا سوچنے کا بھی |
آج آ گئے ہیں گھر پہ ہدایت ہوئی ہے کیا |
جب بھوک سے برا ہوا ہو حال دوستو |
لُقموں سے چند اس کی کفایت ہوئی ہے کیا |
چشمِ فسوں کے دام میں ہم آ گئے تو کیا |
شہرت پذیر یہ بھی حکایت ہوئی ہے کیا |
کیا کیا وہ ڈھونڈ پائے ہیں ہم میں خرابیاں |
اس پر بھی بات درجۂ غایت ہوئی ہے کیا |
ظلمت سے نور کی طرف آؤ مگر تمہیں |
ایمان سے نصیب ولایت ہوئی ہے کیا |
وہ جو بلا رہا ہے تمہیں اتنے پیار سے |
اس کی محبّتوں کی نہایت ہوئی ہے کیا |
ہجرت کے بعد اس کے قریب اور آگئے |
یہ بھی پیمبروں کی روایت ہوئی ہے کیا |
طارق جو معجزاتِ دُعا کے ہو معتقد |
تم میں بھی اس کی روح سرایت ہوئی ہے کیا |
معلومات