آزادی کا کیوں نام لیا دوست آہ آہ |
تالے ہیں منہ پہ پاؤں میں زنجیر واہ واہ |
بیٹھے ہوئے جگر سے نکلتی ہے سرد آہ |
جلاد بھی ستم پہ یوں ہوتا ہے داد خواہ |
جمہوریت کو دیس میں ملتی ہے یوں پناہ |
ہی ہی ہے تیرے لب پہ تو جنتا کے لب پہ آہ |
انسان دوست تم یوں ہوئے ایسے امن خواہ |
ہر اک گلی میں آگ ہے ہر شہر قتل گاہ |
مشعل سے تیری کھلتی گئی تیرگی کی راہ |
اسمارٹ سٹی کی سبھی لائٹ ہیں اب گواہ |
آپس میں بھائیوں کی بھی ملتی نہیں نگاہ |
اے وائے حادثہ کہ جو پر امن جان کاہ |
رنگین کچھ یوں ہو گئی دنیا تری الہ |
کیوں آبِ زیست کی کوئی رہتی ہے ان کو چاہ |
آؤ کہ آج ہم بھی اٹھا لیں یہ مشکلیں |
انسانیت کی راہ کو روشن کیے چلیں |
مانندِ آفتاب یوں بڑھتے چلے چلیں |
اپنی کبھی نہ شام ہو ہم نہ کبھی ڈھلیں |
دیں وقتی مصلحت ہمیں کتنی ہی جنبشیں |
نہ اپنے پاؤں ڈولیں نہ اپنے قدم ہلیں |
اپنے وطن کی راہ میں کھائیں جو ٹھوکریں |
آئیں شکن جبیں پہ نہ پیشانی پر بلیں |
اہلِ وفا نہ جور و ستم سے کبھی ڈریں |
جب عشق کر لیا ہے تو آئیں گی مشکلیں |
گردوں پہ پھر سے ہوں کمند انداز کیا ہوئے |
عبد الکلام کے پرِ پرواز کیا ہوئے |
سندھی کے وہ سلاسلِ آزاد کیا ہوئے |
محمود کے شرارۂ ممتاز کیا ہوئے |
ماں بہنیں بوا بیٹی کے کپڑے اتار دو |
پوری ہوئی ہوس تو انھیں جاں سے مار دو |
ہر سر پھرے کو دار و رسن سے گزار دو |
سینے میں ان کے خنجر و چھورا اتار دو |
آؤ بھگت ہو ان کو عقیدت کا ہار دو |
الفت پریم سلامی سے لبریز پیار دو |
غنچہ کلی یہ پھول یہ دل کش بہار دو |
اپنی انا پہ دیش کی ہر چیز وار دو |
بھارت کے تن پہ پھر وہی زخموں کے ہار دو |
ماتھے پہ اس کے خون کے نقش و نگار دو |
بھرپور نفرتوں سے کوئی کارزار دو |
مجرم فسادی دشمن کے روپ دھار دو |
دریائے آتشیں کو بھی تھوڑا ابھار دو |
مذہب کی کشمکش کو رہِ استوار دو |
مقتل میں پھر شہادتِ فریادی کا ہے جشن |
معلومات