ابتدا ہی میں ملی مجھ کو سزا یاد آیا
مجھ کو جنّت سے نکالا بھی گیا یاد آیا
گیلی مٹی سے اُٹھایا گیا آدم کا خمیر
اور شیطان جو آتش سے بنا یاد آیا
کشتیٔ نوح میں آ بیٹھے بچائے جو گئے
کب تھا سیلاب میں فرزند بچا یاد آیا
جس پہ فرعون بھی چڑھ دوڑا تھا لشکر لے کر
اژدہا بن گیا جس کا تھا عصا یاد آیا
جو بھی آیا ہے یہاں جانا ہے اک دن اس کو
جو گیا جاتے ہوئے اُس نے کہا یاد آیا
آگ میں ڈالا گیا جس کو جلا تھا کب وہ
اُس کا تو بال بھی بیکا نہ ہوا یاد آیا
تشنہ لب چھوڑ کے صحرا میں گیا تھا کوئی
پھر وہاں چشمۂ زمزم بھی اُٹھا یاد آیا
عمر ساری جو گزاری اسے سوچا ہی نہیں
آخری وقت وہ یاد آیا تو کیا یاد آیا
کیوں بھلا مانگ نہ لیں اُس کو اسی سے طارق
خواہشیں ختم ہوئیں اب تو خدا یاد آیا

0
16