اساس میں بہا جو اِس کی ، آج بھی ، لہو ملے |
عزیز تر ہو جاں سے گر وطن ، تو آبرو ملے |
جو آنکھ ٹپکے بادَلوں کی ، تب ہوں سبز وادیاں |
جلے جو آفتاب تو ، حیات کو نمو ملے |
زبان پر ہیں ، تِشنہ لب جِہاد کی کہانیاں |
گلی گلی یہاں پہ رقص ، ہاتھ میں سبو ملے |
سنی ہے داستاں بہادری کی ایک دور میں |
چمن کو نغمہ خوان جب بہت سے خوش گلو ملے |
تھا ماں کا روپ اُس گھڑی تو اور ہی نکھر گیا |
اِسے سنبھالنے کو جب جوان خوبرو ملے |
ہیں گونگی اب شرافتیں ، ضمیر بھی ہیں سو گئے |
روایتوں میں ہاں کہیں ، لکھی وہ گفتگو ملے |
تلاش تھی کبھی کہ پائیں راہیں علم و فضل کی |
کہاں وہ عزم و شوق اب ، کہاں وہ جستجو ملے |
خزاں کا دَور ہے تو کیا کہ ، زرد ہے ذرا زمیں |
بہار کے ، عَلَم پہ اس کے ، رنگ ہو بہو ملے |
ہوں دُور مفسِد و کمیں ، مکیں یہاں کے ہوں امیں |
یہاں بھی امن و آشتی ، ہے دل کی آرزو ملے |
کمال ہے صلاحیت کی ، اس کے باسیوں میں جو |
درست سمت میں چلے ، وہ شخص ، سرخرو ملے |
ہو نم زمیں اگر ذرا ، ہری بھری ہو پھر فضا |
چمن میں وہ چلے ہوا ، سفر میں گُل کی بُو ملے |
زمانے بھر کی چاہتیں ہوں اس کے ساتھ ہر قدم |
کہ تیرگی میں روشنی دعا کی چار سُو ملے |
ہے طارق اب یہ آرزو کہ امن ہو ، امان ہو |
خدا کرے کہ رہنما اب اس کو ، نیک خُو ملے |
معلومات