جب سے حالات آزمانے لگے
دوست مجھ سے نظر چرانے لگے
جوں ہی رکھا قدم جوانی میں
داغ دل کے مجھے جلانے لگے
لکھنے بیٹھے جو اپنی جگ بیتی
قصے ماضی کے سب فسانے لگے
کھو گئے آگہی کے رستوں میں
خود کو پانے میں پھر زمانے لگے
وقت دولت ہے اب سمجھ آیا
جب سے پیدا ہوئے گنوانے لگے
نام لکھا تھا جس جگہ شاہد
لوگ اس کو ہی پھر مٹانے لگے

0
56