کیوں قلم چلتا نہیں تیرا حزیں حالات پر |
صِنفِ نسواں ہو گئی حاوی ترے جذبات پر |
کیا یہی اک خواب ہے تیرے جزیروں کی امیں |
اس سے آگے بڑھ کے تیری سوچ جا سکتی نہیں |
ہر گھڑی زلفوں کی باتیں ہر زماں سیمیں جمال |
چشم و ابرو پر مقالے صبر و ایماں خال خال |
واہ واہ کیا خوب صورت ہونٹ ہیں کیا ناک ہے |
اپسرا عذرا و وامق کا لبادہ چاک ہے |
کس قدر الھّڑ بھی ہے اور نرم و نازک گفتگو |
دیکھنے کو شیخ بھی رہتے ہیں ہر دم باوضو |
کیوں نہیں تُو سوچتا یہ ماں بھی ہے بیٹی بھی ہے |
تیرے فردا کی امیں ہے نسل کی کھیتی بھی ہے |
تھی جو پردے میں کبھی وہ جانِ محفِل ہوگئی |
چار دیواری میں تھی اب نقشِ محمِل ہو گئی |
مَیں بھی کہتا ہوں غزل لیکن نہیں ہے اِشتہا |
سامنے رکھّا اسے جو زندگی میں بھی رہا |
اصل میں اب نسلِ انسانی بڑے خطرے میں ہے |
وہ کہ بحرِ بیکراں تھا اب زبس قطرے میں ہے |
بیچتی ہیں مائیں بھی بہنیں بھی لاشہ ہرجگہ |
تب کہیں مخصوص تھا اب یہ تماشا ہر جگہ |
آہ کتنی بھُوک ہے غُربت ہے استیصال ہے |
ہر زماں ہے ہر گھڑی ہر ماہ ہے ہر سال ہے |
درسگاہوں میں سکولوں میں مظالم الاماں |
برگ و گُل پر پھول پر لُوطی جہنّم الاماں |
چھین لیتے ہیں حسیں پھولوں سے اُن کا بانکپن |
دین کے پردے میں ننّھی جان کا جلتا بدن |
لے گئے تثلیث کے فرزند بازی ہر جگہ |
ہم شہیدوں کی قباؤں میں ہیں غازی ہر جگہ |
مُوقلم کے زور پر بدلو زمانے کی فضا |
قابلیّت بھی ہے ہمّت بھی تو پھر ڈرنے کا کیا |
معلومات