جو بہت سوچیں ، تردّد میں پڑا کرتے ہیں
سادہ ہوتے ہیں محبّت جو کیا کرتے ہیں
یاد آتا ہے مصوّر جو نظر آئے صنم
جن کا ہوتا ہے خدا، یادِ خدا کرتے ہیں
زندگی مثلِ حباب آتی ہے اور جاتی ہے
دیکھتے دیکھتے بن کر وہ مٹا کرتے ہیں
آتشِ عشق سدا رکھتے ہیں روشن دل میں
جو جلیں اس میں کہاں پھر وہ بجھا کرتے ہیں
وہ جو دیکھے تو نظر آتے ہیں بسمل کتنے
جب چلیں تیر نظر ، کب وہ خطا کرتے ہیں
زخمِ دل لے کے یہاں لوگ چلے آتے ہیں
وہ مسیحا ہیں تو زخموں کو سیا کرتے ہیں
جن کو شکوہ ہے زمانے سے، زمانہ جانے
ہم نبھاتے ہیں اگر عہدِ وفا کرتے ہیں
اس کے دیوانوں میں شامل ہیں تو خوش ہیں طارق
ربّ کا اس بات پہ صد شکر ادا کرتے ہیں

0
49