حسن کو عشق ہے منظور جواب آیا ہے
عمر جب بیت گئی اپنی شباب آیا ہے
ہم تو پہلے سے ہی قرباں تھے اسی مہ رُخ پر
نُور جس چہرے پہ بے حدّ و حساب آیا ہے
اس کو معلوم ہے کیا ہجر میں بیتی مجھ پر
پڑھ کے وہ بھی مرے چہرے کی کتاب آیا ہے
جب سے آیا ہے وہ گلشن میں مہک تازہ ہے
ایسا احساس ہوا جیسے گلاب آیا ہے
پاس بیٹھا ہوں کبھی اس کے جو میں کچھ لمحے
لوگ کہتے ہیں کہ یہ پی کے شراب آیا ہے
اس کے ہر لفظ میں ہم نے تو سحر دیکھا ہے
لوگ سر دُھنتے ہیں جو اس کا خطاب آیا ہے
کب عتاب آتا ہے جب تک نہ کوئی آئےنذیر
سوچو تو کیسا یہ دنیا پہ عذاب آیا ہے
ہے یہی بات تو اچھی تری طارق تُو بھی
جب کبھی یاد کیا اُس نے شتاب آیا ہے

0
87