نہیں جو منزل تری، محل کوٹھیوں میں ٹھہری
عقابی پرواز کر، فلک کی بلندی چھوتی
مگن ہوتے ہوئے آگے کی سمت ہی کو چلنا
مکر نہ جانا کبھی، ڈٹے رہتے جیتیں بازی
خواب غفلت سے جاگ جائیں تو کچھ ہے حاصل
وگرنہ پرسان حال ہو بھی ہمارا کوئی؟
نمٹنا حالات سے ہمیں ہوگا ہر طرح سے
ہٹیگی حیرانی تب ہی، جب ہو بھی جائیں جری
نرالے ہیں پیار کے طریقے، چلیں سنبھل کے
سوائے مخلص نفور کے باقی ہیں بے معنی
بے غرض دنیا سے ہو بیٹھيں، تو ہی بات بنتی
ہو اندھی تقلید تو بگڑ جاتی ہے کہانی
پہیلی ناصر سلجھ بھی پائیگی یاں کسے کب
بڑی کٹھن لگ رہی مگر حل تو ہو سکیگی

0
86