کان در پر لگائے رکھتے ہیں
خود کو شب بھر جگائے رکھتے ہیں
وہ نہ آئیں گے راہ میں پھر بھی
دیدہ و دل بچھائے رکھتے ہیں
کہیں جزبے نہ برف ہو جائیں
آگ دل میں لگائے رکھتے ہیں
ہم غلاموں کی بس ادا ہے یہی
گردنوں کو جھکائے رکھتے ہیں
گھاؤ جتنے بھی دل پہ ہیں شاہد
خود سے بھی ہم چھپائے رکھتے ہیں

94